گھنیری بدلیوں میں
گھنیری بدلیوں میں
وہ بچے گود میں لیے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرہ پر ایک ملکوتی حسن جھلک رہا تھا۔ وہ مخصوص حسن جو صرف مامتا ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ کچھ اداس سی بچے پر جھکی ہوئی، وہ میڈونا نظر آرہی تھی۔ مقدس مریم کی اس تصویر کی مانند جس میں وہ یسوع مسیح کو گود میں اٹھائے مامتا بھری نظروں سے انہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ کتنی خوبصورت ہیں بچے کی آنکھیں۔ بالکل اپنے باپ کی سی، بڑی بڑی بادام کی سی، اور یہ لانبی لانبی پلکیں، اسے کتنی خواہش تھی کہ بچے کی آنکھیں ایسی ہی ہوں۔ ان دنوں جب وہ امید سے تھی تو اپنے شوہر کی آنکھوں کو ہمیشہ تکاکرتی تھی۔ اور آئینہ میں دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کو زیادہ توجہ سے نہ دیکھا کرتی، اس خوف سے کہ کہیں بچہ کی آنکھیں اس کی آنکھوں سے مشابہ نہ ہوجائیں گو اس کی اپنی آنکھیں بھی خوبصورت تھیں کالی رسیلی آنکھیں جن میں ستاروں کی سی چمک بھی تھی اور خاموش نیلے سمندر کی سی گہرائی بھی۔ مگر اس کے شوہر کی آنکھیں کچھ اور ہی طرح سے حسین تھیں۔
بڑی بڑی بادام کی سی نیلی آنکھیں اور لانبی اوپر کو مڑی ہوئی پلکیں دونوں کی آنکھیں خوبصورت تھیں۔ لیکن وہ چاہتی تھی کہ بچے کی آنکھیں اس کے شوہر کی سی ہوں۔۔۔ لانبی پلکوں کی جھالر میں دو چھلکتے ہوئے جام۔ وہ ان آنکھوں کو اس وقت بھی تکاکرتی تھی جب وہ اس پر محبت کی کرنیں برسا رہی ہوتیں۔ اس وقت جب وہ نشہ سے بوجھل ہوجاتیں۔ اس وقت بھی جب وہ آنکھیں نیند کے غلبہ سے بند ہوئی جاتیں۔ اور لانبی پلکیں اس کے خوبصورت رخساروں پر کانپ رہی ہوتیں۔ اس وقت بھی جب وہ بند ہوجاتیں۔ بادام کی سی آنکھیں اور رخساروں پر جمی ہوئی وہ ریشمیں پلکیں۔ وہ چاہتی تھی کہ بچے کی آنکھیں بھی ایسی ہی ہوں۔ باپ کی سی! لڑکی کے دل میں اس کی یاد پھر ٹیس بن کےاٹھ رہی تھی۔ اس نے ایک سرد آہ بھری۔ آج تو وہ چند لمحے بھی اس کے ساتھ نہ گزار سکی تھی۔ صبح اٹھتے ہی وہ تھوڑا سا ناشتہ کرکے آفس چلا گیا تھا۔ پھر جب وہ پانچ بجے لوٹا تو دوست پیچھے لگے تھے۔
یہ دوست آشنا بھی کیا بلا ہوتے ہیں جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ لڑکی کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ کبھی کبھی تو شام ہی سے آدھمکتے ہیں اور آدھی آدھی رات تک بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے ہیں۔ پھر وہ کوئی ایسے گہرے دوست تو نہ تھے یونہی اس سے بحث کرنےآیا کرتے تھے بھلا اس کے شوہر سے کہیں بازی لے جاسکتے تھے؟ کتنااعلیٰ ذوق تھا اس کے شوہر کا! لڑکی کے دل میں فخر و محبت کے جذبات امڈ آئے۔ کیا ان لوگوں کو اتنا بھی احساس نہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے سےملنے کے لیے کتنے بے چین ہوں گے۔ شاید ان لوگوں کے سینے میں دل ہی نہیں۔ اگر ہوتے تو کم از کم انہیں اتنا تو احساس ہوتا کہ وہ بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ آج بھی جب وہ اس کی آواز سن کر بھاگی بھاگی دروازہ کھولنے گئی تھی تو اسے یہ دیکھ کر کتنا غصہ آیا تھا کہ دو تین دوست بھی ساتھ ہیں۔ دن بھر کے صبر آزما انتظار کے بعد بھی وہ اس سے نہ مل سکی تھی۔ اُف آج وہ کتنا ترس گئی تھی لمحہ بھر کے ساتھ کے لیے۔ خیر یہ دوست تو سات بجے ہی چلے گئے تھے۔ اب تو وہ اس کے پاس بیٹھ سکے گی۔ لیکن اسی وقت بچہ رونے لگا تھا اور اسے بچہ پر غصہ آگیا تھا۔ ہاں اس ننھے سے یک ماہی بچے پر بھی۔ نہ جانے ان عورتوں کے دل کیسے ہوتے ہیں۔ جو بچوں ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتی ہیں۔ ایک بچہ ہوجائے تو شوہر کی محبت کم ہوجاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسے تو اپنے شوہر ہی سے محبت رہے گی۔ مامتا ہرگز اس محبت کی برابری نہیں کرسکتی۔ اسے اپنے بچہ سے بھی اس لیے محبت تھی کہ وہ اس کا بچہ تھا۔ اس کے اپنے جمیل کا۔ جب جمیل پنگھوڑے پر جھکا ہوا محبت سے بچہ کو کھلا رہاہوتا تو اس کا دل مسرت سے معمور ہوجاتا تھا۔ ہاں اسے بچہ کو سلاکر جمیل کے پاس گئی تھی۔ تب کسی نے آکر جمیل کو آوازدی اور اسے بلاکر کہا۔ فلاں کے ہاں تمہاری دعوت ہے۔ وہ ٹال رہا تھا۔ ’’دیکھیے آج میری طبیعت کچھ خراب ہے‘‘لیکن وہ آدمی اصرار کرکے اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔۔۔ اور وہ! اس کا دل درد کے بوجھ تلے دبا ہوا! وہ آج ہی نہیں کئی دنوں سے یہ درد محسوس کر رہی تھی جب سے وہ کورٹ جانے لگا تھا۔ لیکن یہ کیوں؟ آخر سبھی عورتوں کے شوہر دن بھر کام پر چلے جاتے ہیں۔ وہ یوں نہیں تڑپتی رہتیں۔ عجیب لڑکی ہے وہ بھی! لیکن ایک ماہ پہلے ان کی زندگی کیسی حسین تھی۔ وہ جانتی بھی نہ تھی کہ جدائی کیسی ہوتی ہے۔ وہ دن بھر ساتھ رہتے تھے۔ ایک دوسرے کی محبت میں سرشار، زندگی کا ہر لمحہ حسین نظرآتا تھا۔ اس کے لیے آنے والی گھڑی میں مسرت پنہاں تھی اس کے لانبے مضبوط بازوؤں میں بھینچی ہوئی، جب اس پر جھکی ہوئی ان حسین آنکھوں میں امرت ہی امرت چھلک رہا ہوتا جب ان نگاہوں میں محبت کی وہ گرمی ہوتی کہ وہ اس کی تاب نہ لاکر آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں میچ لیتی۔ وہ محسوس کرتی کہ فردوس میں جاپہنچی ہے یا کوئی حسین سپنا دیکھ رہی ہے۔ اسے اس سے زیادہ مسرت مل ہی نہیں سکتی۔ وہ فرطِ مسرت سے دیوانی ہوجائیگی ۔۔۔ لیکن اب اس کے ساتھ رہ کر بھی وہ گویا اس سے دور تھی۔ دن بھر تو اسے کورٹ میں رہنا پڑتا۔ لوٹتے ہی مطالعہ میں مصروف ہوجاتا۔ پھر آفس سے لائے ہوئے مقدموں کے فائل بھی دیکھنے ہوتے تھے۔ کاش وہ ان کی شادی کے چند دنوں بعد ہی پریکٹس شروع کردیتا۔ وہ کم از اس تنہائی کی عادی تو ہوجاتی۔ لیکن انہوں نے پورا ایک سال دنیا کے بکھیڑوں سےآزاد رہ کر گذارا تھا اپنی رومان کی بستی میں۔ انہیں زمینوں سے کافی آمدنی ہوتی تھی لیکن جمیل کہا کرتا تھا۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ مجھے اس کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ میں سوسائٹی کاایک بیکار عضو ہوں۔ پھر اس کے اشتراکی اصول۔ ’’یہ آمدنی تو غریب مزدوروں کے پسینے کی کمائی ہے۔ جب تک میں اپنی محنت سے نہ کماؤں چین نہیں آتا۔ میں نے گاؤں میں زمینوں کی دیکھ بھال بھی مختار پر چھوڑ رکھی ہے۔ یہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیکار بیٹھا ہوں۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرناہوگا۔‘‘ اور اس نے پریکٹس شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس وکالت نے اس سے جمیل کو چھین لیا ہے۔ اس کی زندگی سےساری رنگینی نچوڑ لی ہے۔ کیا اب دن یونہی بیتتے جائیں گے؟ وہ پھر مسرت نہ دیکھ سکے گی۔ بچہ اس کی گود میں ہلا۔ اس کی بھنچی ہوئی ننھی سی مٹھی گال پر سے کھسک کر لڑکی کی گود میں آگری لڑکی نے جھک کر بچے کا منہ چوم لیا۔ ’’میرے ننھے اب تم ہی میرے لیے خوشی کی ایک کرن ہو۔‘‘ وہ رقت بھری آواز میں بولی۔ بچے نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔ لڑکی کے لبوں پر ایک لمحہ کے لیے پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ یکایک بچے نے منہ بنایا جیسے اُسے تکلیف ہو رہی ہے اور درد سے چیخنے لگا۔ ’’میرے اللہ میرا بچہ بیمار ہے!‘‘ اس نے بچے کو سینے سے چمٹا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ سسکیاں جو نہ جانے کتنے دنوں سے اس کے گلے میں گھٹی ہوئی تھیں۔ اُبل پڑیں۔ وہ آنسو جنہیں وہ اب تک پی کر رہ گئی تھی ایک طوفان بن کر بہ نکلے۔ وہ اٹھی بچہ کو گرائپ واٹر پلایا اور آہستہ آہستہ اس کا پیٹ دبانے لگی۔ لیکن بچہ برابر چیختا جارہاتھا۔ ’’میرے ننھے تو تو یہ بھی نہیں بتاسکتا تجھے کیا درد ہے۔ میرے بچے کا سارا درد مجھے دیدے الہی۔ یہ ننھی سی جان اسے سہہ نہی سکتی۔‘‘ لڑکی نے اپنی پرنم آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں۔ بچہ کو بھینچ کر سسکیاں لینے لگی۔ بچہ اس کے سینہ سے لگ کر سوگیا تھا۔ اس نے آہستہ سے اسے زانو پر لٹالیا۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی۔ آنسوؤں کی دو بڑی بڑی بوندیں اس کی خوبصورت آنکھوں سے رخساروں پر ڈھلک آئی تھیں۔ ٹن کی آواز آئی۔ لڑکی نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا۔ ساڑھے نو بج رہے تھے۔ اب جلد ہی وہ آجائے گا۔
اس کے کانوں میں وہ مانوس آواز آئی۔ وہ پیاری آواز۔ اسے جمیل کی آواز سے بھی کتنی محبت تھی۔ جب کبھی وہ باہر سےآکر دروازہ کھولنے کے لیے آواز دیتا۔ اس کادل دھڑکنےلگتا تھا۔ اس کی رگ رگ میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی۔ لیکن آج وہ اتنی خوش نہ ہوسکی۔ اس کے دل کو اس پیہم کسک نے اتنا مسل دیا تھا کہ وہ کھل ہی نہ سکتا تھا۔ اس کی خوشی اتنی دھیمی تھی جیسے کہیں دور گھنیرے بادل کی تہوں میں بجلی کی چمک دکھائی دے۔ اس کے دل پر غم کی ایسی ہی تہیں جمی تھیں۔ اس نےآنسو خشک کیے۔ بچے کو پنگھوڑے میں سلایا۔ جلدی سے آئینہ لے کر صورت دیکھی اور دروازہ کھولنےچلی۔ لیکن جمیل کے بھائی کوبھی ساتھ دیکھ کر ٹھٹک گئی اور دروازہ کھولنےکے لیے لڑکے سے کہہ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ سر کو پیچھے جھٹکا دے کر آنکھیں میچ تصور کرنے لگی۔ جمیل کے کمرے میں آتے ہی وہ اس سے لپٹ جائے گی۔ دن بھر کے صبر آزما انتظار کے بعد آخر کار وہ چٹخنی کھولنے کے لیے بڑھی۔ لیکن اسے ایک شرارت سوجھی۔ نہیں، جب وہ آئے گا تو وہ اس کمرے میں نہیں ہوگی۔ اب وہ بھی اسے تڑپائے گی، وہ بھاگ کر دالان میں جاچھپی۔ وہ اسے کمرے میں نہ پاکر کتنا مضطرب ہوجائے گا۔ وہ بھی دن بھر اس سے دور رہ کر کتنا بے چین رہا ہوگا۔ وہ اسے دیوانہ وار سب کمروں میں ڈھونڈتا پھرے گا۔ پھر جب وہ دالان میں مل جائے گی تو کتنی بیتابی سے اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ لے گا۔ کچھ دیر تک وہ کچھ بول ہی نہ سکے گا۔ پھر وہ جھک کر آہستہ سے کہے گا۔ ’’نجمی! میری جان‘‘ اور وہ اس کے سینہ میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر روئے گی۔ اتنا کہ اس کا دل پگھل کر آنکھوں کے رستے بہ جائے۔ جمیل اس کاسر اپنے سینے سے لگاکر اسے تسلی دے گا۔ ’’نجمی، میری نجمی‘‘ اور وہ اپنی غمناک آنکھیں اٹھاکر کہے گی۔ ’’آج کل تم مجھ سے کتنے دو رہو جمیل!‘‘ وہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر کہے گا۔ تمہاری جدائی میں مجھے بھی اتنا ہی درد ہوتا ہے۔ لیکن کیا کریں۔ زندگی صرف رومان ہی تو نہیں۔ اور وہ جھک کر اس کے ہونٹ چوم لے گا۔‘‘ ’لو جانی، آج میں تمہاری خاطر کتابیں بھی نہیں پڑھوں گا۔‘‘ اور وہ دونوں خوش خوش اپنےکمرے میں واپس آئیں گے۔ پھر وہ پیار کی باتیں، میٹھی میٹھی شکایتیں!
لیکن جمیل کو آئے دس منٹ گزر چکے تھے۔ وہ اب تک اسے ڈھونڈتا ہوا نہ آیا تھا۔ مایوس ہوگئی۔ وہ کیوں نہیں آیا۔ آخر کیوں؟ کیا وہ اس سے ملنے کے لیے مضطرب نہیں ہے۔ شاید وہ وہیں کمرے میں لباس تبدیل کرکے لیٹ رہا ہوگا۔ اس نے تمام دن ذرا بھی آرام نہ کیا تھا۔ کتنی تکان محسوس ہو رہی ہوگی اس کو! وہ کتنی بے رحم ہے۔ وہ خود ہی اس کے پاس جائے گی۔ نجمہ کمرے میں آئی۔ وہ یہاں بھی نہ تھا۔ اس نےکھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ وہ برآمدے میں بیٹھا اپنے بھائی سے باتیں کر رہا تھا۔ تو اسے اب بھی انتظار ہوگا۔ وہ تلخی سےنچلاہونٹ چبانے لگی۔ آخر وہ کب تک انتظار کرتی رہے گی۔ کب تک یہ درد سہتی رہے گی۔ وہ گھلی جارہی تھی۔ آخر کب تک؟ وہ نڈھال ہوکر بچھونے پر گر پڑی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی لیکن کھانا کھانے کو جی نہیں چاہ رہاتھا۔ کتنے دنوں سے وہ یونہی گھلی جارہی ہے۔ وہ صبح صبح ہی آفس چلاجاتا ہے۔ وہ دن بھر اس کی یاد میں کھوئی اداس بیٹھی رہتی۔ جمیل کی یاد اسے اتنا ستارہی ہوتی کہ وہ کتاب پر توجہ نہ کرسکتی۔ ہاں کچھ دیر تک اپنے بچے کو چاند کاٹکڑا کہتے ہوئے اسے خیال آتا، بچہ تو صرف چاند کا ٹکڑا ہے۔ جمیل تو پورا چاند ہے۔ اس کی ساری خوشیاں سمٹ کر جمیل کی ذات میں سماگئی تھیں۔ اس کی دنیا جمیل تھی۔ کبھی کبھی آفس جاتے ہوئے وہ کہہ جاتا، ’’میرا یہ سوٹ تہہ کر کے رکھ دو جانی۔‘‘ ’’نوکر سے کہہ دو نجی شوز صاف کرکے ڈبوں میں رکھ دے۔‘‘ وہ بڑی محبت سے اس کے کہے ہوئے کام کرتی تھی۔ بڑے پیار سے اس کے کوٹ تہہ کرتی۔ انہیں سینہ سے لگالیتی۔ شوز صاف کرنے کے لیے وہ نوکر سے نہ کہتی۔ خود ہی برش لے کر ان پر سے گرد پونچھتی۔ اس کاجی چاہتا انہیں چوم لے ہاں جوتوں کو بھی! انہیں جمیل اپنے پاؤں میں پہنتا تھا نا۔ پھر جب اس کے آنے کاوقت قریب ہوتا، اسکی اداسی کم ہونے لگتی۔ جیسے آہستہ آہستہ بادل چھٹ جائیں اور مطلع صاف ہوجائے۔ دل پر سے بوجھ اتر جاتا۔ اب جمیل آئے گا وہ دھڑکتا ہوا دل لیے دروازہ کھولنے جائے گی۔ کواڑ کھلتے ہی یہ معلوم ہونے سے پہلے کہ وہ اندر آگیا ہے۔ وہ اس کے بازوؤں کی گرفت میں ہوگی۔ اس کے نرم ہونٹوں کے لمس سے مدہوش ہوجائے گی اور اپنا سارا درد بھول جائے گی۔
نہیں شاید یوں نہیں ہوگا، وہ تھکا ہوا آئے گا۔ پژمردہ اور وہ دروازے میں کھڑی ایک محبت بھری مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرے گی۔ وہ مسکراہٹ اس کی تکان دور کردے گی۔ اس میں نئی جان ڈال دے گی۔ وہ اپنا تھکا ہوا سراس کی گود میں رکھ دے گا۔ وہ ایک مامتا بھرے پیار سے اس کی خوبصورت پیشانی چوم لے گی۔ اور اپنی نازک انگلیاں اس کے بالوں میں پھیرتی ہوئی آہستہ آہستہ کوئی میٹھا ترانہ چھیڑے گی۔ اور وہ اس کی گود میں اس راگنی سے مدہوش ہوجائے گا۔ پھر اس کے کان میں وہ مانوس آواز آتی ،’’نجمہ،‘‘ وہ اپنے خیالات سے چونکتی دوڑی ہوئی جاکر دروازہ کھولتی۔ وہ تھکا ہوا ہوتا۔ وہ اس کی تکان دور کرنےکے لیے اپنے ہونٹوں پر ایک نرم میٹھی مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتی لیکن وہ آتے ہی پوچھتا، ’’آج کا اخبار آیا ہے نجمی!‘‘ اور وہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر آنے سے پہلے ہی سینے میں گھٹ کر رہ جاتی۔ وہ مایوس ہوکر اپنی پیاسی نظریں جھکالیتی اور اخبار لے آتی۔ وہ اس کی طرف دیکھےبغیر نہایت بے تابی سےاخبار لے لیتا اور وہ ایک دبی آہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ جاتی۔ اس انتظار میں کہ اخبار ختم ہونے پر وہ اس کی طرف توجہ کرے گا۔ لیکن جمیل اخبار ختم کرکے دوسری کتابیں اٹھا لیتا۔ وہ ملجتیانہ لہجہ میں کہتی، ’’بہت تھک گئے ہو، ذراآرام کرونا!‘‘
’’کیا کروں نجمی! پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ پڑھنا پڑھنا! اُف یہ پڑھناکبھی ختم بھی ہوگا۔ یہ کتابوں کا انبار۔ ہر روز اس انبار میں اضافہ ہوتا رہتا۔ اچھی خاصی لائبریری بنا رکھی تھی اس پر بھی بس نہ تھا۔ وہ کوئی ان پڑھ لڑکی تو نہ تھی کہ کتابوں سےبیر رکھتی اسے بھی کتابیں پسند تھیں۔ لیکن کوئی یوں بھی پڑھتا ہوگا۔ ان بے جان کا غذ کے تودوں کے سامنے اس کا دکھتا ہوا دل کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ جمیل کو اتنا بھی احساس نہیں کہ وہ دن بھر اس کے انتظار میں کتنی اداس رہی ہے۔ اُف یہ انتظار! مسلسل انتظار! وہ اس وقت بھی اس کاانتظار کر رہی ہوتی۔ گو وہ اس کے پاس ہی بیٹھا ہوتا۔ ساری توجہ تو کتاب پر مرکوز ہوتی۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ اب بھی اس کے پاس بیٹھا رہ کر بھی اس سے دور ہے، بہت دور۔۔۔ یونہی گیارہ بج جاتے اور اسے نیند آنے لگتی۔ اسے جمائیاں لیتی دیکھ کر وہ کہتا، ’’تمہیں نیند آرہی ہے نجمی؟ سو جاؤنا ، مجھے ابھی دس صفحے اور پڑھنے ہیں۔ میرا انتظار نہ کرو نجمی!‘‘ وہ بچھونے پر لیٹ جاتی۔ ابھی دس صفحے اور؟ وہ بیتابی سے کتاب پر نظریں جمائے رہتی۔ جمیل کو ورق الٹاتے دیکھتی۔ ایک دو، تین، چار، پانچ… اور نیند کے غلبہ سے اس کے پپوٹے بند ہونے لگتے۔ پھر بھی وہ اس کے انتظار میں بیدار رہتی۔ چھ، سات، آٹھ۔ اس کے سر میں درد ہونے لگتا۔ آنکھیں بری طرح جل رہی ہوتیں۔ وہ ان جلتی ہوئی پلکوں کو بہ مشکل کھولے رہتی۔ نو، دس، آخر کار۔ وہ اطمینان کی ایک گہری سانس لیتی۔ لیکن … مجھے غضب کی نیند آرہی ہے نجمی! اور اس کی ابھرتی ہوئی امنگیں سینہ میں دب کر رہ جاتیں۔ وہ جمیل پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتی لیکن وہ سرسے پاؤں تک چادر تان کر سویا ہوتا۔ وہ اسکے چہرہ کو بھی نہ دیکھ سکتی۔ اس کا دل بے اختیار بھر آتا، آنسو اُبل آتے۔ پھر اس کی جلتی ہوئی نمناک آنکھیں آپ ہی آپ بند ہوجاتیں اور وہ سوجاتی۔ یونہی تشنہ لب، پیاسی!
آخر وہ کیا کرسکتی تھی؟ کیا وہ جمیل سے کہہ دیتی کہ وہ کئی دنوں سے اس کی محبت کی پیاسی ہے۔ وہ اس کی ان محبت بھری نظروں، بے تاب بازوؤں کی گرفت اور شہدآگیں نرم ہونٹوں کے لمس کے لیے کتنا ترس گئی ہے۔ اس سے التجا کرتی کہ پہلے ہی کی طرح وہ پیار کی میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہے۔ اسی طرح رنگین لفظوں میں شاعرانہ وارفتگی کے ساتھ اس کے حسن کی تعریف کرے۔ اسی بے تابی سے اپنی محبت کا اظہار کرے۔ جیسے پہلے کیا کرتا تھا۔ نہیں، اس کی خودداری یہ کہنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ عورت میں وقار ہونا چاہیے۔ حسن کو تو ناز ہی بھاتا ہے۔ حسن خود ہی نیاز بن جائے تو اس میں وہ وقعت کہاں رہے گی۔ اگر یہ باتیں کہہ کر اپنا مقصد پالیتی تو اسے جمیل کی محبت میں وہ بیتابی، وہ بے ساختگی کہاں نظر آئے گی۔ اس کے دل میں ہمیشہ یہ احساس ابھرے گا کہ وہ اس کے کہنے پر محبت کا اظہار کر رہا ہے۔ اس لیے وہ زبان سے کچھ نہ کہتی۔ لیکن اس کی آنکھیں تو سب کچھ کہہ دیتی تھیں۔ کیا وہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ اس کی آنکھوں میں کتنی حسرت جھلکتی ہے کتنی یاس چھپی ہوتی ہے۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مغموم حسن میں بلا کی کشش ہوتی ہے۔ ان حسین آنکھوں کی ادا سی پتھر سے دل کو بھی پگھلانہ دیتی پھر جمیل کا دل تو اتنا نرم تھا۔ اتنا محبت بھرا دل۔۔۔ لیکن وہ اس کی آنکھوں کو دیکھتا ہی کب تھا۔ اسےکتابوں میں لکھے ہوئے نئے نئے افسانے پڑھنے سے فرصت ہی کہاں ملتی تھی کہ وہ اس کی آنکھوں میں لکھی ہوئی مایوسیوں کا افسانہ پڑھتا!
پھر ایک دن اس نے جمیل سے اشارتاً کہہ بھی دیا تھا۔ اس وقت جب وہ آلڈس ہکسلی (Aldaus Huxley) کا مشہور ناول ’’پوائنٹ کاونٹر پوائنٹ‘‘ (Point Counter Point) پڑ رہی تھی۔ مصنف نے تین چار عورتوں کے مختلف کردار کھینچے تھے۔ جمیل نے پوچھا،’’تم ان میں سے کون سے کردار کے خاکے میں ٹھیک بیٹھتی ہو؟ تم نے دیکھا ’جانی‘ ہکسلی کےکردار اس ناول میں ’’ٹاپئس‘‘ ہیں۔
بتاؤ تم ان میں سے کون ہو ان تین چار عورتوں میں سے ۔‘‘ جواب میں فوراً کہہ اٹھی تھی ’’ایلینار‘‘۔ اس وقت ایلینار کا کردار اس پر اس قدر جچتا تھا کہ اسے جواب دینے سے پہلے سوچنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ گو ان میں سے ہر ایک کے احساسات پڑھتے ہوئے اسے خیال ہوا تھا کہ اس نے خود بھی کبھی نہ کبھی ایسا محسوس کیا ہے۔ لیکن اب فی الحال تو ایلینار کی تمثیل اس پر ٹھیک آئی تھی۔ عجیب اتفاق تھا جب جمیل نے اس سے یہ پوچھا تھا۔ وہ ایلینار ہی کے بارے میں پڑھ رہی تھی اور محسوس کر رہی تھی، ایلینار کی زندگی اس کی موجودہ زندگی سے کتنی ملتی جلتی ہے! ایلینار اس کا عکس ہے۔ ایلینار جس کا شوہر فلپ ہمیشہ کتابوں میں کھویا رہتا تھا۔ وہ اسے رومان و محبت کی دنیا میں لانے کی کوشش کرتی لیکن بے سود۔ فلپ جانتا ہی نہ تھا کہ جذبات کیا بلا ہوتے ہیں۔ اس کے تو گو یا دل ہی نہ تھا۔ اگر تھا بھی تو اس میں دماغ ٹھنسا ہوا تھا، وہ تو سراپا دماغ تھا۔ خشک، ٹھوس خیالات کا اڈا۔ ہر وقت سوچنا، سوچنا۔ فلپ معمولی سےمعمولی بات میں بھی کھینچ کھانچ کر کوئی نہ کوئی فلسفہ، کوئی منطق ڈھونڈ نکالتا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایسے واقعات پیش آتے جس سے دوسروں کے جذبات میں ہلچل مچ جاتی۔ مگر فلپ کے جذبات کابرانگیختہ ہونا تو درکنا روہ متاثر بھی نہیں ہوتا۔ ایسے موقعوں پر بھی اس کے ٹھوس دماغ کے پرزے فوراً کام پر لگ جاتے او روہ کوئی منطقی نتائج اخذ کرنے لگتا۔ اور ایلینار غریب لڑکی! وہ محبت کی کتنی پیاسی تھی۔ خصوصاً اس کتاب میں وہ ایک سین پڑھ کر تو بہت متاثر ہوئی تھی۔ وہ سین جس میں فلپ اور ایلینار کار میں بیٹھے بمبئی کی گلیوں سے گذر رہے تھے۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ فلپ کار چلا رہا تھا۔ ایلینار اس کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ مطلع صاف تھا اور چودھویں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔ سڑک پر دو رویہ درخت تیزی سے ان کی نظر کےسامنے سے گزر جاتے۔ اس خوش گوار فرحت انگیز فضا میں ایلینار کے دل میں رومانی جذبات اُٹھ رہے تھے۔ اس نےآہستہ سے اپنے شوہر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر چاند پر نظریں جمائے بولی:
’’پیارے فل! تمہیں یاد ہیں وہ چاندنی راتیں؟‘‘
فلپ بھی چاند کو دیکھ رہا تھا لیکن چاند بھی اس کے دماغ میں خشک اور ٹھوس خیالات کی تخلیق کر رہا تھا۔ یہ رومانی ماحول بھی اس میں کوئی لطیف جذبہ پیدا نہ کرسکا۔ وہ بیوی کے سوال پر چونکا، ’’کون سی چاندنی راتیں؟‘‘ اور ایلینار کی ساری امڈتی ہوئی امنگیں سرد ہوگئیں۔ ’’تم وہ راتیں بھول گئے ہو فل؟ وہ حسین چاندنی راتیں جو ہم اس باغ میں گزارا کرتے تھے۔ ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم اکثر چاندنی راتوں میں اس باغ میں چلے جاتے۔ وہ محبت کی راتیں آہ! وہ دن بھی کیا دن تھے!‘‘ ایلینار نے ایک سرد آہ بھری۔ ’’تم ان محبت کی یادگار حسین راتوں کو بھول گئے ہو؟‘‘
’’میں بھولا نہیں ایلینار۔ لیکن تم صرف ’وہ چاندنی راتیں‘ کہو تو میں انہیں راتوں کو کیسے خیال کرسکتا ہوں؟ میں تو اس وقت کچھ اور سوچ رہا تھا۔‘‘
’’تم اب مجھ سے محبت نہیں کرتے، فل!‘‘ ایلینار رو پڑی۔ ’’اب تمہیں مجھ سے پہلی سی محبت نہ رہی۔ اگر ہوتی تو تمہیں ان راتوں کی یاد آجاتی۔ سچ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔‘‘
’’لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں ایلینار۔‘‘ ہاں ایلینار بھی جانتی تھی کہ فلپ اس سے محبت کرتاہے لیکن ایسی محبت بھی کس کام کی جس کا اظہار ہی نہ ہو۔ وہ محبت جس کو کتابوں کے تودے نے دل کے کسی تاریک گوشہ میں کھسکا دیا ہے جو منطق کے بوجھ تلے دبی دم توڑ رہی ہے۔ ہاں فلپ کادل بھی تو کتابوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔۔ اور یہ سین پڑھتے ہوئے اسے احساس ہوا تھا کہ وہ خود ایلینار ہے۔ اور جب جمیل نے پوچھا تھا کہ وہ ناول کی کرداروں میں سے کون ہے تو وہ جھٹ کہہ اٹھی تھی ایلینار! شاید یہ جواب سن کر جمیل نے قیاس کرلیا تھا کہ وہ کیوں اپنے آپ کو ایلینار کہہ رہی ہے۔ شاید اسے چرکا بھی لگا تھا، اس نے جلدی سے پوچھا، ’’تو میں فلپ ہوں؟‘‘ اس کے جی میں آیا تھا کہ کہہ دے ، ’’ہاں فلپ ہی تو ہر وقت کتابوں میں ٹسےک رہتے ہو۔‘‘ لیکن اس نے کچھ سوچ کر یہ جواب نہ دیا تھا۔ ’’فلپ… تو نہیں … ہو،‘‘ اس نے کہا تھا۔ لیکن ایک لمبی راگ کھینچ کر یہ ظاہر کرنےکے لیے کہ چند دنوں سے وہ پورا فلپ نہیں تو کم از کم تین چوتھائی فلپ ضرور ہے۔ لیکن جمیل نے شاید اس اشارے کو نہ سمجھا۔
کیونکہ وہ اس جواب سے مطمئن ہوگیا تھا اور ہنس کر کہا تھا، ’’لیکن آگے چل کر تو دیکھو تمہاری ایلینار کیا گل کھلاتی ہے۔‘‘
اس سے آگے پڑھ کر دیکھا تھا۔ ایلینار نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اپنے شوہر کو کچھ دیر کے لیے تو رومانی دنیا میں لائے۔ اس کے سینہ میں کبھی کبھی جذبہ کی ایک لہر تو پیدا ہوجائے۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ فلپ اتنا غیر رومانی تھا۔ ہر وقت کی سوچ بچارنے اس کے جذبات کو سکھا دیا تھا۔ ایلینار آخر تنگ آگئی تھی۔ اس میں بغاوت سی پیدا ہوگئی۔ آخر وہ کیو ں اپنی خوشی کو اس خشک آدمی پر قربان کردے۔ دیکھتی دکھاتی کیوں اپنے ارمانوں کاخون کرے، کب تک اپنے دل کو پیاسا رکھے۔ وہ ایسے آدمی کی تلاش کرے گی جو محبت کا اظہار کرنا جانتا ہو۔ پھر ایک دوست ان کے گھر آیا تھا۔ جو ایلینار کی شادی سے پہلے اس سے محبت کرتا ہے۔ ’’آخر تم کیوں اس سرد مہر خشک فلپ کے ساتھ رہ کر اپنا حسن اپنی زندگی برباد کر رہی ہو۔ تم نہیں جان سکتیں ایلینار میں تمہیں کیسی محبت دے سکوں گا۔ تمہیں ایسی محبت نصیب ہی کہاں ہوئی ہے! تم نہیں اندازہ لگاسکتیں میری محبت کیسی ہوگی۔ اتنی شاعرانہ، اتنی گہری، اتنی گرم اور جوش بھری،‘‘ اور ایلینار نے ان باتوں سے مسحور ہوکر یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ فلپ کو چھوڑ دے گی اور اس آدمی سے شادی کرلے گی ۔۔۔ تو ایلینار نے یوں کیا تھا ، وہ ایلینار جس کو وہ اپنا عکس سمجھ رہی تھی۔ تو کیا اب بھی وہ ایلینار ہے۔ کیا وہ بھی ایلینار کی طرح جمیل کا ساتھ چھوڑ دے گی؟ اُف وہ اس خیال سے کانپ گئی۔ نہیں ہرگز نہیں، وہ ہمیشہ جمیل کی رہے گی۔ جمیل فلپ کی طرح سرد اور خوش تونہیں تھا۔ صرف یہ بات تھی کہ جب سے اس نے پریکٹس شروع کی تھی، اس کو بہت کم فرصت ملتی تھی اور پڑھنے لکھنے کا اسے اس قدر شوق تھا۔ تھوڑا بہت جو وقت ملتا تھا۔، اسی میں صرف ہوجاتا۔ ورنہ وہ پہلے کتنی گرم جوشی سے محبت کااظہار کیا کرتا! وہ محسوس کرتی کہ شاید ہی کوئی شوہر اپنی بیوی سے اتنی محبت کرتاہے۔ وہ دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہے۔ اور وہ خود بھی ایلینار سے الگ تھی۔ ایلینار نے معمولی تعلیم حاصل کی تھی۔ اپنے شوہر کے بلندخیالات کو صرف تحسین کی نگاہ سے دیکھ سکتی تھی۔ نہ تو ان کتابوں کو پڑھ کر سمجھ سکتی تھی۔ جنہیں فلپ پڑھا کرتا تھا۔ نہ ہی ان سے تبادلہ خیالات کرسکتی تھی۔ فلپ کے خیالات کی اڑان کا ساتھ دینا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ اگر وہ فلپ کے ساتھ اس کی دلچسپی کی باتیں کرسکتی۔ اس کے خیالات میں حصہ لے سکتی تو شاید اپنے آپ کو اتنا تنہا محسوس نہ کرتی۔ لیکن وہ خود تو گریجویٹ تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں ذہین بھی، کالج بھر میں اس کی ذہانت کی دھوم تھی۔ جمیل تو اس کی ذہانت دیکھ کر خوشی سے دیوانہ ہوگیا تھا اور وہ دونوں ایک ساتھ کتابیں پڑھاکرتے، ناولوں اور افسانوں پر تنقیدی بحث کرتے۔ ان کے ذوق میں کتنی یکسانیت تھی۔ دونوں کو وہی افسانے پسند آتے دونوں کو کسی افسانے میں وہی خاص خامی کھٹکتی اور وہ اپنی اس ہم خیالی پر خوشی سے جھوم جاتے۔ جمیل دیوانہ وار اسے بھینچ لیتا، ’’واقعی، جانی ہم دونوں صحیح معنوں میں ایک ہیں،‘‘ پھر وہ اس پر جھک کر دبی آواز میں کہتا،
’’من توشدم تو من شدی‘‘
وہ اپنے ہونٹوں پر ان جلتے ہوئے ہونٹوں کو محسوس کرتی اور نیم بیہوش سی ہوکر آنکھیں میچ لیتی۔ برآمدے سے کرسیوں کے پیچھے ہٹانے کی آواز آئی۔ شاید ان کی باتیں ختم ہوچکی تھیں۔ ہونہہ! وہ اب آئے گا۔ بے شک آئے گا۔ وہ پلنگ سے اٹھ کر مسکراتی ہوئی اسکااستقبال نہ کرے گی۔ یونہی منھ پھیر کر سوتی رہے گی۔ تکیوں میں منہ چھپاکر اوندھی لیٹ رہے گی۔ وہ سیدھے اس کے پاس آئے گا۔ کپڑے بدلنے سے پہلے،’’روٹھ گئی ہو جانی۔‘‘ وہ اسے گدگدائے گا۔ وہ مچل کر کروٹ بدلے گی۔
’’معاف کردونا،‘‘ وہ یوں بے حس پڑی رہے گی، جیسے سچ مچ سو رہی ہے۔ ’’دیکھو ہاتھ جوڑتا ہوں میرے من مندر کی دیوی!‘‘ وہ آنکھیں کھولے بغیر مسکرادے گی۔ ’’معاف کردونا جانی۔‘‘
وہ آنکھیں کھول کرناز سے کہے گی، ’’اچھا معاف کیا۔‘‘
’’نہیں مجھے سزا ملنی چاہیے۔ ان نازک ہاتھوں سے ایک طمانچہ لگادونا۔‘‘
’’میں اور تمہیں تھپڑ ماروں۔ مجھ سے یہ نہ ہوگا۔ تم میرے سرتاج ہو جمیل!‘‘
’’ان پھول سے ہاتھوں کا تھپڑ بھی کوئی تھپڑ ہوگا۔ مارو نا جانی۔ دیکھو مجھے چین نہ آئے گا۔‘‘ اور وہ شوخی سے مسکراتی ہوئی پیار سے اس کے گال پر ایک ہلکی سی تھپکی دے گی۔ اور جمیل اسی ہاتھ کو بے تابی سے چوم لے گا۔
لیکن وہ ابھی تک کیوں نہیں آیا؟ نجمہ نے اٹھ کر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ وہ اس کمرے کی طرف نہیں۔ اپنے بھائی کے کمرےکی طرف جارہا تھا۔ شاید بھائی کو اپنے کمرے میں پہنچا کر آئے گا۔ کوئی آخری بات کرنی ہوگی۔ لیکن اُف! وہاں بھی وہ کرسی پر جم گیا اور باتیں شروع کردیں۔ تو یہ انتظار ابھی ختم نہیں ہوا۔ آخر وہ کب تک انتظار کرے گی۔ صبر کی بھی حد ہوتی ہے۔ کوئی کب تک صبر کرے۔ نجمہ کے ہونٹ بھنچ گئے۔ کیا وہ جان بوجھ کر بے پروائی برت رہا ہے۔ جمیل سمجھتا ہوگا کہ وہ اس سے دور رہے تو وہ اس کی طرف اور کھنچی چلی آئے گی۔ ہونہہ! وہ کیوں کھنچے گی۔ بڑا فخر ہوگا اس بات کا۔ ’’نجمہ مجھ پر جان جھڑکتی ہے۔‘‘ ہونہہ! وہ کیوں جان دینے لگی۔ جب اسے اتنا ستایا جائے۔ وہ کیوں سارا دن اس کی یاد میں کھوئی رہے۔ اس کا صلہ اسے کڑھنے کے سوا کیا مل رہا ہے۔ جب وہ اتنا بے پروا ہوگیا ہے۔ تو وہ بھی بےپروا ہوجائے گی۔ وہ بھی اس سے دور دور رہے گی۔ نجمہ پلنگ سے اُتر گئی اور تیزی سے دوسرے کمرے میں چلی آئی۔ یہاں چار پائی پر بچھونا پڑا ہوا تھا۔ وہ چادر تان کر لیٹ گئی لیکن نیند کیسے آئے غصہ بری طرح چڑھ رہا تھا۔ جسم جل رہا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا۔ حلق میں کوئی چیز اٹک رہی ہے۔ سسکیاں اس کے گلے میں گھٹ رہی تھیں۔ مگر وہ رونانہیں چاہتی تھی۔ وہ جمیل پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتی تھی کہ وہ اس کی پروا نہیں کرتی۔ آج رات وہ یہیں سوئے گی۔ جمیل کے ہزار منت کرنے پر بھی نہ جائے گی۔
بچہ جاگ اٹھا۔ کہیں دودھ کا وقت تو نہیں؟ نجمہ نے گھڑی دیکھی۔ گیارہ بج رہے تھے۔ دودھ کا وقت نہیں تھا۔ وہ لیٹے لیٹے ہی گہوارہ آہستہ سے جھلانے لگی۔ گیارہ! کیا وہ اب بھی نہیں آئے گا۔ کیا جمیل جان بوجھ کر اسے تڑپا رہا ہے؟ کیا وہ اب بھی نہیں آئے گا۔ کیا وہ اپنے ’’قیمتی وقت‘‘ میں سے پانچ دس منٹ بھی اسے نہیں دے سکتا؟ آخر وہ کورٹ سے لوٹتے ہی کیوں کتابوں میں ٹھنس جاتاہے؟ صبح آفس جاتے ہوئے تو اتنی جلدی میں ہوتا ہے۔ ہر وقت یہی رٹ لگی رہتی ہے،’’مجھے جلدی جانا ہے۔‘‘ ’’وقت نہیں ہے۔‘‘ ’’ابھی سے لیٹ گیا ہوں‘‘۔۔۔دروازہ کھلنے اور بجلی کا بٹن دبانے کی آواز؟ جمیل اس کے کمرے میں آگیا تھا۔ نجمہ نے سراٹھا کر دیکھا۔ وہ جلدی جلدی کپڑے بدل رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آنے لیے کتنا بےتاب ہے! نجمہ مسکرائی۔ لیکن وہ تو نہیں جائے گی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور بے حس پڑی رہی تاکہ جمیل سمجھ لے وہ سو رہی ہے۔ اس نے اپنی گردن کے گرد کسی کے ہاتھوں کو محسوس کیا۔ جمیل اسے سوتی سمجھ کر پیار سے اس کی موتی کی مالا اور بُندے نکال رہا تھا۔ دوسرے لمحہ میں وہ جمیل کی گرفت میں تھی اور وہ محبت بھری آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی، ’’اٹھو نجمی پیاری، چلو ہمارے کمرے میں۔‘‘ اور نجمہ بھول رہی تھی کہ وہ جمیل سے خفا ہے اس کا جی بے اختیار چاہ رہاتھا کہ مسکرادے۔ یونہی آنکھیں بند کیے مسکراتی ہوئی وہ بہت دلکش نظر آتی تھی۔ جمیل کو اسکی یہ ادا بہت ہی پسند تھی۔ ہر صبح وہ اس سے پہلے بیدار ہوجاتا تھا۔ وہ نیم خوابی کی حالت میں آنکھیں بند کیے پڑی رہتی۔۔۔ پھر بھی اسے معلوم ہوجاتا کہ جمیل کی پرشوق نگاہیں اس کے چہرے پر جمی ہوئی ہیں اور جمیل کہہ اٹھتا، ’’اُف یہ حسن خوابیدہ! عورت سوئی ہوئی کتنی حسین لگتی ہے۔‘‘ اور وہ یونہی آنکھیں بند کیے مسکرادیتی تو جمیل کیسے بے خود ہوجاتا تھا۔ نجمہ کے سارے عزم ٹوٹ رہے تھے ، وہ سب کچھ بھول کر اپنے آپ کو جمیل کے سپرد کردینا چاہتی تھی۔ لیکن پھر اس پر غصہ چڑھا آرہا تھا۔ جمیل نے اسے کتناستایا تھا۔ وہ اتنا جلد اس کی باتوں میں آجائے گی ’’نجمی اٹھو بھی‘‘۔ ’’ڈارلنگ‘‘ آؤ جانی، نہیں وہ نہیں جائے گی۔ وہ کیوں بزدلوں کی طرح سوتی بن رہی ہے۔ وہ آنکھیں کھول کو جمیل کو بتادے گی کہ وہ جاگ رہی ہے اور اس کے ساتھ آنا نہیں چاہتی۔ نجمہ نے آنکھیں کھول دیں۔ جمیل نے جھک کر اسکا گال چوم لیا۔ لیکن نجمہ جلدی سے منہ پھیر کر سوگئی۔ ’’تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو، جانی؟‘‘ وہ منہ پھلائے رہی۔ ’’کیوں آخر کیوں بولو نجمی؟‘‘ وہ نہیں بتائے گی کہ وہ کیوں ناراض ہے اگر اسے معلوم ہوگیا کہ وہ اس کے لیے کتنی بے چین رہی ہے تو جمیل کواور خوشی ہوگی۔ اسے خوش کیوں ہونے دے گی۔ وہ تو اس سے انتقام لے رہی ہے۔ وہ بھی اسے ستائے گی۔ خوب ستائے گی۔ ’’نجمی اب آ بھی جاؤ۔‘‘ وہ پھر منتیں کر رہا تھا۔ کیا وہ چلی جائے؟ وہ اب جانے پر راضی ہوجائے گی تو جمیل خیال کرے گا کہ وہ دو ایک میٹھی باتوں سے مان جائے گی۔ وہ کیوں منےگی۔ وہ روٹھی رہ کر جمیل کو بتادے گی کہ اسے منانا کوئی کھیل نہیں ہے۔ جمیل نے اسے اتنا تڑپایا ہے ، وہ دو ایک میٹھی باتوں سے من جائے گی؟ لیکن مناتےمناتے جمیل خفا ہوجائے، تو معاملہ طول نہ کھینچے گا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اسے یہیں ختم کردیا جائے۔ طول کھینچے تو کھینچے وہ اتناجلد نہ مانے گی۔۔۔ جمیل اس کو اپنے بازوؤں میں اٹھا رہاتھا۔ اسی وقت بچہ جاگ اٹھا۔ وہ ایک جھٹکے کےساتھ جمیل کی گرفت سےنکل گئی اور بچہ کو گود میں لے لیا۔ جمیل کچھ دیر اس کے پاس ہی بیٹھا رہا۔ ’’نجمی نہیں آؤگی؟‘‘ نجمی نے یونہی منہ پھلائے ہوئے نفی میں سرہلادیا ۔جمیل کے مردانہ وقار کوٹھیس لگ رہی تھی۔ آخر وہ کب تک منائے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اچھا‘‘ بچے کو سلا دیا۔۔۔ اب وہ چلی جائے؟ بس ستا چکی نا؟ ہونہہ کہاں ستاچکی۔ صرف چند منٹ؟ نہیں، جمیل کو رات بھر اس کے لیے تڑپنا ہوگا ، وہ صبح کو بھی نہیں جائے گی۔ آج ہی نہیں ہمیشہ اس سے دور رہے گی۔ اور اس وقت جمیل کو بھی تڑپنا پڑے گا تب اسے محسوس ہوگا کہ وہ بھی کتنے دنوں سے اس کے لیے تڑ پا کی ہے۔ نجمہ نے آخر نہ جانے کا فیصلہ کرلیا اور چادر تان کر لیٹ رہی۔
نجمہ کونیند ہی نہیں آرہی تھی۔ وہ غور سے سن رہی تھی ،کیا جمیل سو گیا ہے۔ نہیں تو وہ بھی کروٹوں پر کروٹیں بدل رہا ہے۔ جمیل بھی اس کے بغیر کتنا بے چین ہے۔ جمیل واقعی اس سے بے حد محبت کرتا ہے دل کی گہرائیو ں سے۔ وہ کتنی ناشکرگزار ہے کہ ایسی گہری محبت کی قدر نہیں کرتی۔ ہونہہ! چلی ہے گلہ کرنے، جمیل اب پہلے کی طرح زبان سے محبت کا اظہار نہیں کرتا۔۔۔ محبت کااظہار محبت کے لیے کسوٹی تونہیں ہے۔ اس کے برخلاف یہ کہا جاتا ہے کہ سچی محبت وہ ہے جس کااظہار نہ کیا جائے۔ آج کل جمیل اپنی محبت کاشاعرانہ وارفتگی سے اظہار نہیں کر رہا تھا تو کیا ہوا۔ اس کی ہر بات ہر حرکت سے کتنی محبت ٹپکتی پڑتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خاموش محبت جھلکتی تھی۔وہ ہمیشہ خیال رکھتا کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ جمیل کتنا پریشان ہوجایا کرتا تھا۔ رات کے دویا تین بجے جب اسے متلی سی ہوتی یا سینے میں جلن ہونےلگتی وہ آہستہ سے اٹھ بیٹھتی۔ بہت ہی آہستہ سے تاکہ جمیل کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ لیکن جمیل۔ اس کا جمیل! کتنی ہی گہری نیند میں ہو ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھتا، ’’تمہیں کیا تکلیف ہو رہی ہے جانی؟ سینے میں جلن؟‘‘ وہ کتنی دیر تک آہستہ آہستہ سہلاتا۔ اس کے کندھے پر سر رکھے ہوئے وہ محسوس کرتی کہ اسے کوئی تکلیف نہیں۔ جب اسے متلی ہوتی تو جھٹ دوڑ کر پانی اور بیسن لے آتا۔ خواہ باہر کتنی ہی سردی لگ رہی ہو،۔۔۔ یہ اس کا پہلا بچہ تھا، اور کبھی کبھی خوف اس کے دل کو جکڑ لیتا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ بچے کی پیدائش ماں کے لیے زندگی اور موت کی کشمکش ہے۔ ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے ماں موت کے منہ میں چلی جاتی ہے ۔۔۔ اور ایک دن بے خبری میں اس نے اپنے تنہا رازدان، دکھ درد کے ساتھی جمیل پر یہ خوف ظاہر کردیا تھا۔ اس کے سینہ سے لگ کر، سہمی ہوئی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈال کر کہا تھا، ’’جمیل میں بچ نہ سکوں تو؟‘‘ اور جمیل کو جیسے بجلی مار گئی۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اس پر سکتے کا سا عالم طاری ہوگیا اور اس نے اسے بھینچ کر سینے سے لگالیا۔ اس کی گرفت اتنی سخت ہوگئی جیسے وہ اُسے نہیں چھوڑے گا اگر موت بھی چھیننے کی کوشش کرے۔ دم اس کے گلے میں گھٹ گیا تھا۔ بہت دیر بعد اس نے رندھے ہوئے گلے سے کہا، ’’ایسا نہ کہو نجمی! خدا ہمیں جدانہیں کرےگا، وہ اتنا بے رحم نہیں ہے۔ وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھینے گا۔ میری روح کو مجھ سے نہیں چھینے گا۔ موت کو بھی ہمارے پیار پررحم آجائے گا۔ جمیل کی حالت کس قدر دگرگوں ہوگئی تھی اُس دن۔ نجمہ اسے تسلی دیتی رہی تھی۔ ’’میں نے یونہی کہہ دیا تھا۔ بھلا میں کیوں نہ بچوں گی۔اتنی تندرست جو ہوں،‘‘ لیکن جمیل کو جانے کیا ہوگیا تھا اس دن۔۔۔ جب جمیل کے دل کی گہرائیوں میں اس کے لیے اتنی محبت نہاں ہے تو کیا یہ سراسر زیادتی نہیں ہے کہ وہ زبانی اظہار بھی چاہتی ہے؟ پھر جمیل تو اظہار بھی کیا کرتا تھا ایسی ہی شاعرانہ وارفتگی سے۔ صرف آج کل دن بھر کی تکان اور پھر کتابوں کے کثیر مطالعہ سے وہ ذراخشک سا ہوگیا تھا۔ ورنہ اس کا جمیل فطرتا کتنا شاعر مزاج اور رومانی تھا۔ رومانی ہی نہیں جذباتی بھی۔جب وہ چند دن کے لیے بمبئی گیا ہوا تھا تو کس قدر جذباتی ہوگیا تھا۔ صرف چند ہی دنوں کی جدائی نے اسے بے چین کردیا تھا۔ وہ رومانی خطوط جو بمبئی سے لکھا کرتا تھا۔ ان سے کتنااضطراب، کتنی بے تابی،کتنی جذباتیت چھلکتی پڑتی تھی۔ وہ ان خطوں کو سینہ سے لگالیتی۔ دیوانہ وار چومتی۔ ان کا ایک ایک لفظ اس کے دل پر نقش ہوجاتا تھا۔ بمبئی سے واپس ہونے کے بعد بھی۔ وہ جنون، وہ اضطراب! اُف! ان دنوں وہ کتناجذباتی ہوگیا تھا۔ وہ جمیل کے کشادہ سینے سے سرلگائے ان محبت پاش آنکھوں میں دیکھ رہی ہوتی۔ جمیل کادل کس زور سے دھڑک رہاہوتا ۔ وہ اسے اپنے آہنی بازوؤں میں جکڑ کر بھینچ رہا ہوتا۔ قریب اور قریب۔ گرم سانسوں کے درمیان اس کی بے تاب کانپتی ہوئی آواز نجمہ کے کانوںمیں گونجتی، ’’نجمی میری حسین ترین نجمی۔ اگر میں ایک دن اور بمبئی میں رہ جاتا، اس کے بعد ایک دن بھی تم سے جدا رہتاتو میں دیوانہ ہی ہوچکاہوتا۔ تم نے تو مجھ پر جادو کردیا ہے نجمی!‘‘ ’’ڈارلنگ! مائی اون ڈارلنگ۔‘‘ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ تم میری جیون ساتھی ہو۔ میری اپنی ہو، نجمی میری نجمی‘‘ پھر وہ اسے اتنے زور سے بھینچ لیتا جیسے اس کو اپنی ہستی میں سمو دے گا۔ اور وہ، وہ جمیل کے دل سے لگی ہوئی محسوس کرتی کہ جمیل کی محبت اُس کی رگ رگ میں پھڑک رہی ہے۔ وہ اپنے جمیل کے لیے جان بھی دے دیگی۔ اپنا سب کچھ جمیل کے قدموں میں نچھاور کردے گی۔ اس کی محبت میں وہ آگ ہوگی کہ۔۔۔
بچہ رونے لگا۔ نجمہ نے گھڑی دیکھی۔ ایک بج رہا تھا۔ اف! وہ اب تک سو نہ سکی تھی۔ بچہ کو دودھ دینے کا وقت تھا۔ وہ اٹھی۔ دریچہ میں رکھی ہوئی بوتل میں دودھ انڈیل کر اس میں تھوڑی سی شکر ملائی اور نلپ لگاکر بچہ کے منہ میں دے دیا اور آہستہ آہستہ پنگوڑہ ہلانے لگی۔ بچہ یونہی دودھ پی کر سوگیا۔ گہوارہ کی کیں کیں بند ہوئی ہی تھی کہ ساتھ والے کمرے سے پلنگ کی کھڑکھڑاہٹ کی آواز آنے لگی۔ جمیل بار بار کروٹ بدل رہا تھا۔ کیا جمیل کو بھی نیند نہیں آرہی ہے؟ وہ اس کے پاس نہ ہونے سے بے چین ہے؟ جمیل کو اس سے کتنی محبت ہے!جمیل اس کا جمیل! معصوم، شاعر مزاج اور جذباتی۔ جمیل کی فطرت بلورکی طرح پاک اور شفاف ہے۔ وہ ضرور رومانی ہے۔ اس کا جمیل، اس کے دل کا مالک، اس کاپیارا جمیل کتنی بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا۔ کیا اس لیے نہیں کہ وہ جان لے وہ ابھی تک جاگ رہا ہے۔ کیا جمیل کو معلوم ہوگیا تھا کہ بچہ اٹھنے پر نجمہ بھی جاگ اٹھی ہے اور اسے دودھ دے کر سلاچکی ہے۔ کیا وہ اس لیے کروٹیں نہیں بدل رہاتھا کہ وہ یہ معلوم کرکے کہ وہ جاگ رہا ہے اس کے پاس چلی آئے گی۔ ہاں اس کی کروٹیں کہہ رہی تھیں۔
’’دیکھو نجمی میں کیسے جان گیا کہ تم جاگ اٹھی ہو۔ اب آبھی جاؤ جانی! دیکھو میں کتنی بے چینی سے ساری رات آنکھوں میں کاٹ رہا ہوں۔‘‘ نجمہ کا جی چاہ رہا تھا کہ چلی جائے۔ ضرور چلی جائے گی۔ اس سے لپٹ جائے گی۔ سینہ میں منہ چھپاکر پھوٹ پھوٹ کر روئے گی۔‘‘ مجھے معاف کرو جمیل۔ میرے سرتاج مجھ سے غلطی ہوئی۔‘‘ وہ جمیل کی آواز سننے کے لیے ہمہ تن گوش بن گئی تھی۔ کاش جمیل اس کو ایک ہی دفعہ پکارے! لیکن اب تو وہ کروٹیں بھی بدل نہیں رہا تھا۔ کیا وہ سوگیا ہے؟ سو گیا ہوگا۔ وہ کیوں جاگے گا اسکے لیے؟ اپنے جذبات کو یوں کچل کچل کر رکھتا ہے وہ جذبات کے امڈتے ہوئے سیلاب میں بہ جانا چاہتی تھی اور جمیل جذبات کو کمزوری سمجھتا ہے۔ عقل کو ہر بات میں رہنما کرنا چاہتا ہے۔ جمیل اتنا جذباتی دل رکھتے ہوئے بھی دماغ کو دل پر حاوی کرنا چاہتا تھا۔ اُف! یہ کتابیں! یہ خشک کتابوں کا مطالعہ ہی تو تھا جو اسے یوں اپنی جذباتی فطرت چھپانے پر مجبور کرتا تھا۔ کتابیں تو گویا اس کی رقیب ہوکر رہ گئی تھیں۔ اتوار کادن بھی! وہ اس دن کا کتنی بے تابی سے انتظار کیا کرتی۔ لیکن اس دن بھی جمیل کو اپنا کوئی مقدمہ دیکھنا ہوتا یا لائبریری کو واپس کی جانے والی کتابیں پڑھ کر ختم کرنی ہوتیں ۔ شام کے چار بجے وہ بڑے اصرار سے اِسے کچھ دیر سیر کرآنے پر آمادہ کرتی۔ کہیں جاؤ تو جمیل! دن بھر گھر بیٹھے تمہارا جی نہیں اکتاتا؟ جمیل کتابوں میں اس قدر کھوجاتا ہے کہ اسے سیر تفریح تک کا خیال نہیں آسکتا۔ سنیما کو بھی وہ شاذ ہی جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی تو مہینوں نہیں جاتا تھا۔ جب تک کوئی بلند پایہ فلم نہ آتی۔ ’’قسمت دیکھنے جائیں گے جمیل! تیسری دفعہ آیا ہے۔ ہم نے اب تک نہیں دیکھا۔‘‘ ’’ارے بمبمئی ٹاکیز کی فلموں میں کیا ہوتا ہے نجمی۔ چند ایک پاپولر قسم کے گانے اور ناچ۔ ہمیشہ ایک ہی قسم کی معمولی کہانی جس میں گہرائی ہی نہیں ہوتی۔ شروع سے آخر تک اینٹرٹینمنٹ! ہمیشہ باکس آفس کی کامیابی پر نظر رہتی ہے ان کی۔ ’ہمراہی‘آئے گا تو ضرور جائیں گے۔‘‘ ’’ہمراہی یہاں جانے کب آئے گا۔ کتنے دنوں سے ہم نے کوئی فلم ہی نہیں دیکھا۔‘‘ Daphne De Murier کا ’’ربیکا‘‘آرہا ہے۔ ضرور دکھاؤں گا تمہیں اور آئندہ ہفتہ تو چھاؤنی کے سنیما ہاؤس میں ایسے اچھے اچھے فلم آرہے ہیں۔ پھر کیا روزروز جائیں گے، پرل بک کاڈریگن سیڈ، امپیریل میں آرہا ہے، پلازا، میں رشیل فیلڈ کا آل دِس اینڈ ہیون ٹو، جیمس ہلٹن کا ریانڈم ہاروسٹ،۔۔۔ وہ زیادہ تر آتھرس کانام ہی لیا کرتا تھا۔ سٹارس کا شاذ ہی، بہت اچھے اداکار ہوں تو ’’ربیکا میں لارنس اولیور نے کام کیا ہے رینڈم ہاروسٹ میں رونلڈ کولمین نے‘‘۔۔۔ اتوار کی شام وہ بڑے اصرار سے اسے باہربھیجتی۔ جب اس کو لوٹنے کا وقت قریب ہوتا تو وہ کوئی ایسی ساری پہنتی جو اسے بہت بھاتی تھی۔ بالوں کے ایسے انداز میں بناتی جسے جمیل پسند کرتا تھا۔ طرح سے آگے پیچھے بالوں میں پھول لگاتی۔ پیشانی پر تلک بھی لگا لیتی۔ جب بن سنور کر آئینہ میں دیکھتی تو خوش ہوجاتی۔ اُف یہ نکھار! جمیل کے ہوش و حواس پر بجلی ہی تو گرادے گی۔جمیل اسے دیکھتے ہی کیسے بے خود ہوجائے گا۔ پھر وہ رنگین سپنوں کے محل! اتنے میں جمیل کی آواز آتی۔ وہ تصور سے چونکتی۔ بیداری میں جمیل کا ساتھ تو ان سپنوں سے کہیں حسین ہوگا جمیل کی آواز سنکر اس کی رگ رگ میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی۔ کچھ دیر بعد جمیل اس کے سامنے کھڑا ہوتا۔ خوبصورت اُونی سوٹ میں ملبوس اس قدر سمارٹ، اس قدر سجیلا، اتنا شکیل، جمیل کو بے خود کرنے چلی تھی۔ وہ خود بے خود ہواٹھتی۔ اس کی باہیں جمیل کو سمیٹ لینے کے لیے بے تاب ہوجاتیں۔ اس کاجی بے اختیار چاہتا بوسوں کی بارش کردے۔ جمیل کے رسیلے، بھرے ہوئے ہونٹوں پر، ان لانبی پلکوں والی حسین نیلی آنکھوں پر، اُبھرے ہوئے رخساروں پر شفاف پیشانی۔۔۔ ’’دیکھو نجمی! آج میں کیسی اچھی اچھی کتابیں لے آیا ہوں۔ خوش ہوجاؤگی تم،‘‘ اور نجمہ کے جلتے ہوئے ہونٹ سرد پڑجاتے۔ ان پر بوسے منجمد ہوجاتے۔ اس نے کتنی دیر سے جمیل کے لیے سنگھار کر رکھا تھا۔ اس کے ٹوٹے ہوئے سپنے! جمیل کسی پارک یا فلم دیکھنے گیا ہوگا۔ اور اس رومانی ماحول کے زیر اثر پہلے ہی سے اس کے دل میں امنگیں اٹھ رہی ہوں گی۔ پھر جب وہ اس کاحسن دیکھے گا تو کیسے بے خود ہوجائے گا اور یہاں جمیل نے پارک یا سنیما جانے کی بجائے بک اسٹالس اور لائبریریوں کی خاک چھانی تھی۔ جمیل ایک ایک کرکے کتابیں بیگ میں سے نکال کر اس کے سامنے رکھتا جاتا۔
’’بیٹرس اور سڈنی ویب کی سوویٹ کمیونزم اتنی سستی مل گئی۔ سوچو تو ساٹھ روپے کی کتاب پچیس روپے میں! کیا بتاؤں تمہیں کیسی ہے یہ کتاب اشتراکی نظام روس میں عملی طور پر کیسے چل رہا ہے۔ یہ جاننا ہو تو میرے خیال میں اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں۔‘‘
’’دو بڑی شاندار ناولیں لے آیا ہوں نٹ ہمیسن کی “Hunger” اور دستاوسکی کی ’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘۔
ورجینا وولف کی Waves اور جارجس سمیینان کی ’’دی شیاوؤفالس‘ بھی خرید لیا۔ تم ان کی تکنیک دیکھنا چاہتی تھیں نا!‘‘
’’کرشنا ہتھی سنگھ کی آٹو بیاگرافی With no Reghets تم ایک ہی بیٹھک میں ختم کردوگی۔ یہ کتاب ایسی دلچسپ اور Readable ہے۔
اور یہ کرسٹوفر اشروڈکی’ گڈبائی ٹوبرلن، رالف فاکس کی ’’دی ناول اینڈ دی پینسل اور ای-ایم فارسٹر کی ۔۔۔ اُفوہ میرے اللہ! ای-ایم فارسٹر کرسٹوفر اشروڈ پراٹین سنکلیہ سٹیفن سپنڈر، ولیم ساردین،الیا اہرن برگ جانے کون سے کون سے نام اس کے کانوں سے ٹکراتے ہیں۔ نہ جانے وہ ان کے متعلق کیا کیا کہہ رہا ہوتا۔ نجمہ کی آنکھیں جمیل کے خوبصورت چہرے پر جمی ہوئی ایک تشنگی کے ساتھ اس کا حسن پی رہی ہوتیں۔ اس کے ہونٹوں میں پھر چنگاریاں سی سلگنے لگتیں۔ اس کاجی چاہتا اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں سے جمیل کے ہونٹوں کو خاموش کردے۔ ایک وحشت کے عالم میں چیخ اٹھے۔ ’’جمیل اپنے حسن پر تو رحم کرو جمیل! اُف تم تو یہ بھی نہیں جانتے تم کتنے سجیلے لگ رہے ہو۔ جمیل دیکھو تم کتنے خوبصورت نظر آرہے ہو، ادھر دیکھو میں کیسی نظر آرہی ہوں‘‘۔۔۔ بازو والے کمرے سے پلنگ کی کھڑکھڑاہٹ کی آواز آئی، ’’کیا پھر جمیل کروٹیں بدل رہا ہے اسے بھی نیند نہیں آرہی ہے؟‘‘ نجمہ نے جھک کر دیکھا۔ جمیل نےپھر دوسری طرف کروٹ لی۔ جمیل اس کے لیے کتنا بے چین ہو رہاہے! اور وہ ہے کہ گلہ پر گلہ کر رہی ہے۔ وہ آتے ہی کتابوں کی باتیں شروع کردیتا تھا تو کیا۔ اسے اپنی نئی خریدی ہوئی کتابیں دکھانے میں خوشی ہوتی تھی۔ کیا اس کے بعد اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا؟ اُف نجمی تم تو غضب کرتی ہو۔ وہ اس کے بے تاب بازوؤں میں ہوتی۔ ’’کتنی، کتنی حسین لگ رہی ہو تم۔ پہلے ہی تمہاری آنکھیں اتنی کالی ہیں اس پر یہ کاجل کی تحریر اور پیشانی پر یہ ٹیکہ کیسے سجتاہے تمہیں۔ تم مجھے دیوانہ بنادوگی نجمی!‘‘ اتناہوکر بھی وہ اس سے گلہ کر رہی ہے۔ آخر وہ جمیل سے کیسے امید کرسکتی تھی کہ وہ ہمیشہ اظہارِ محبت کرتا رہے۔ وہ خود بھی تعلیم یافتہ اور ذہین لڑکی تھی۔ جمیل سمجھتا اسے کتابوں کے متعلق بحث کرنا پسند ہے۔ سہاگ رات جمیل کا سلوک کس قدر مضحکہ خیز تھا! نجمہ کو یہ یاد کرکے ہنسی آگئی۔ جمیل کاجسم جل رہا تھا۔ اس کے سارے بدن میں آگ سی لگی تھی۔ ایک عجیب وحشت کے عالم میں وہ بوسوں کی بارش برسا رہا تھا۔ اسکے ہونٹوں پر، رخسار پر، گردن پر، بالوں پر اپنے جلتے ہوئے ہونٹ جمائے ہوئے گویا ان کا سارا رس چوس لے گا۔ لیکن چڑھی ہوئی سانسوں کے درمیان اس کے مضطرب ہونٹوں سے کتنے غیر رومانی جملے نکل رہے تھے، ’’تم نے بی اے میں کون سے سبجکٹ لیے تھے؟ تمہیں کس سے زیادہ دلچسپی ہے فلسفہ، سوشیالوجی، ایکنامکس؟ لٹریچر؟ تم پاکسا ن کی حامی ہو یا اکھنڈ ہندوستان کی؟‘‘ نجمہ کچھ جواب نہیں دے رہی تھی۔ وہ حیران ہو رہی تھی یہ کیسا آدمی ہے۔ حرکات سےاتنا Passionate معلوم ہوتا ہے۔ لیکن باتوں سے اتنا غیر رومانی! اس وقت نجمہ کے دل میں کتنے ارمان کتنی امنگیں اٹھ رہی تھیں۔ کتنے دن اس نے اس آنےوالی رات کے تصور میں گذارے تھے۔ اس نےجمیل کی تصویر دیکھی تھی۔ فوٹوں میں وہ کتنا رومانٹک معلوم ہوتاتھا۔ اس کی بادام کی سی آنکھوں سے رومانیت چھلکی پڑ رہی تھی۔ وہ حسین تراش کے ہونٹ جن کے کونوں پر ہلکا سا خم تھا، رومان کے رس میں بھیگے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ وہ اِن خوبصورت رومانی ہونٹوں سے اپنے حسن کی تعریف اور جمیل کا والہانہ اظہار محبت سننے کے لیے بے تاب تھی اس کی بجائے یہ خشک باتیں۔ وہ مایوس ہوگئی تھی۔ لیکن دوسرے ہی دن اسے معلوم ہوگیا کہ جمیل حقیقت میں شاعر مزاج اور رومانی ہے۔ دوسری صبح جب نجمہ نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔ اس نے یونہی چوری چوری ذرا سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنا چاہا۔ رات کو فرطِ شرم سے وہ اس کی صورت بالکل نہ دیکھ سکی تھی۔ آنکھیں کھلتے ہی۔ اللہ! جمیل اس پر جھکا ہوا اس کا چہرہ تک رہا تھا! اس کی آنکھوں میں شوق کی دنیا تھی۔ جب نجمہ نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ اس کی آنکھوں کی پتلیاں سبز ہیں اور پلکیں بہت لانبی نوکیلی اوپر کو مڑی ہوئی ہیں کتنی خوبصورت تھیں وہ آنکھیں۔ خصوصاً اس لمحہ جب ان میں شوق کی دنیا تھی لیکن جمیل پیار میں ڈوبی ہوئی بے تاب آواز میں اس کی آنکھوں کی تعریف کر رہاتھا۔ کتنی خوبصورت ہیں تمہاری آنکھیں! کتنی سیاہ، رسیلی، مدبھری۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے اتنی حسین آنکھیں کبھی نہ دیکھیں تھیں۔ نجمہ نے شرماکر آنکھیں نیچی کرلی تھیں۔ جمیل نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر کہا ،’’اوپر دیکھو، میری جان، دیکھو، میری طرف دیکھو،میں کیسا ہوں؟ میری صورت پسندآئی تمہیں؟ مجھے تو تمہاری صورت اتنی ۔۔۔ پھر وہ رنگین لفظوں میں شاعرانہ ورافتگی کے ساتھ اس کے حسن کی تعریف کرتا رہا۔ کبھی اس کا کوئی خاص پوز، یا خاص ادا دیکھ کر وہ بے اختیار کوئی شعر پڑھ دیتا اور نجمہ کو بےحد تعجب ہو رہاتھا کہ جمیل نے رات ایسا سلوک کیوں کیا تھا۔ چند دنوں بعد اس نے ہنستے ہوئے جمیل سے پوچھا تھا، ’’تم نے سہاگ رات کیوں ایسی باتیں کیں۔ وہ کون سا موقع تھا پوچھنے کا۔ تم نے کون سے سبجکٹس لیے تھے؟ تمہیں کس سبجکٹس سے دلچسپی ہے۔ پہلی رات جب ہمارے سینوں میں تمنائیں مچل رہی تھیں۔ یہ غیررومانی باتیں کتنی مضحکہ خیز معلوم ہو رہی تھیں۔‘‘
جمیل نے جھینپتے ہوئے جواب دیا تھا، ’’جس وقت میرے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔ تمہیں کیسے بتاؤں پیاری! میرے دل پر کیا گذر رہی تھی۔ میں اپنے آپ پر کتنا جبر کرکے یہ جملے کہہ رہا تھا۔ میں تمہارے حسن سے مسحور ہوگیا تھا۔ میری آنکھیں تمہارا حسن پی رہی تھیں۔ میں بے خود ہوا جارہا تھا۔ میرا جی بے اختیار چاہ رہا تھا کہ تمہارے حسن کی تعریف کروں۔ تمہیں بتاؤں تم نے مجھ پر کیسا جادو کر دیا ہے۔ ایک ہی رات میں تم نے میرا دل کیسے چھین لیا ہے۔ تم میرے دل میں کیسے سما گئی ہو، لیکن میں نے خیال کیا کہ شاید ایک بلا کی ذہین گریجویٹ لڑکی، اس قسم کی باتیں پسند نہیں کرتی۔ اس سے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جس میں دل سے زیادہ دماغ کا دخل ہو۔‘‘ تو وہ اپنے آپ کو اس لیے روک رہا تھا کہ وہ ’’ذہین‘‘ تھی! اُف! جمیل! جمیل! کیا سہاگ کی رات بھی وہ ایک بلا کی ذہین گریجویٹ لڑکی تھی؟ جمیل کو اتنا بھی نہیں معلوم تھا کہ اس رات وہ محض عورت تھی عورت! اس رات وہ’’بلا کی ذہین‘‘ لڑکی سرتا پا نسوانی فطرت میں ڈوبی دلہن بنی بیٹھی تھی۔ ایک ذہین دماغ نہیں ایک جذباتی دل لیے جس میں ہزاروں امنگیں مچل رہی تھیں؟ لیکن جمیل نے صرف اسی ایک رات ایسا کیا تھا۔ اس کے بعد وہ کتنی بے تابی اور گرم جوشی سے محبت کا اظہار کیا کرتا تھا۔ کیسی شاعرانہ وارفتگی سے اس کے حسن کی تعریف کیا کرتا تھا۔ ’’تم کویتا ہو، میری جان، مجسم شعر!‘‘ ’’تم مینا ہو نجمی! ایک خوبصورت بلوریں صراحی جس میں رنگین شراب جھلک رہی ہے۔‘‘ ’’میری نجمی! تم ایک نیم واکلی ہو۔ وہی حسن، وہی معصومیت، شرم بھی، خودنمائی بھی۔‘‘ کبھی وہ اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر تحسین آفرین نگاہوں سے دیکھتا اور پیار سے کہہ اٹھتا، ’’چودھویں کے چاند۔‘‘ جب چاندنی چھٹکی ہوتی وہ صحن میں پھولوں کی کیاریوں کے پاس جا بیٹھتے وہ چاند کو پھر اس کی صورت کو دیکھ کر کہتا،
’’فلک کے چاند ہم نے بھی زمین پر چاند دیکھا ہے!‘‘
ایک دن بادل گھر آئے تھے۔ کالی کالی گھٹاؤں میں چودھویں کا چاند چمک رہا تھا۔ وہ جمیل کی گود میں چاند پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ ایک سیاہ بادل کے ٹکڑے میں چاند دھیرے دھیرے چھپ گیا۔ وہ جلدی سے جمیل کی طرف پلٹ کر بولی،
’’دیکھو، چاند بادلوں میں چھپ گیا۔‘‘ وہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر کتنی بے ساختگی سے بولا تھا، ’’نہیں تو، کہاں گیا؟ یہ دیکھو چاند میری گود میں ہے۔‘‘
’’جانی! تم ایک دیوی کی طرح حسین ہو۔ جی چاہتا ہے تمہیں کوئی بھی کام کرنے کو نہ کہوں۔ بس تم یونہی مسہری پر بیٹھی رہو اور میں تمہاری پوجا کیے جاؤں۔‘‘
ان کے کمرے کے بلب کا سوچ (Switch) برآمدے میں لگا ہوا تھا۔ ایک رات شاید کسی نے بھول کر سوچ بجھادیا۔ یکایک کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔ جمیل نے پوچھا تھا، ’’تمہیں معلوم ہے نجمی! انہوں نے کیوں روشنی گل کردی۔‘‘ ’’نہیں تو،‘‘ وہ سمجھ نہ سکی تھی۔ ’’اس لیے کہ جہاں تم ہو وہاں اندھیرا نہیں ہوسکتا۔‘‘ جمیل کے یہ بے ساختہ جملے اسے کس قدر پسند آتے تھے۔
ایک دن وہ آئینہ کے سامنے کھڑی بالوں میں پھول لگارہی تھی۔ اس کو خبر ہی نہ ہوئی کہ جمیل چپکے سے پیچھے آکھڑا ہوا ہے۔ ’’وہ تو اپنے حسن سے آپ ہی اتنے مسحور ہیں کہ ہمارے آنے کی خبر تک نہیں۔‘‘ وہ چونک گئی جمیل پیچھے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ چہرہ فرطِ شرم سے تمتما اٹھا اور جمیل نے اس کے عکس کو آئینہ میں دیکھ کر کہا تھا، ’’تم تو مجسم حسن ہو نجمی!‘‘ کتنی دفعہ وہ فرطِ شوق سے کہہ اٹھتا تھا، ’’تمہاری آنکھیں! ان آنکھوں میں کتنی شراب جھلکتی ہے! بس پیتے ہی جاؤ۔ کیسے بتاؤں کیا ہیں تمہاری آنکھیں!‘‘
نجمہ کو ایک ایک کرکے جمیل کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ جمیل اس کا جمیل! وہ رونے لگی۔ موٹے موٹے گرم آنسو تکیہ پوش میں جذب ہوتے رہے۔ وہ روتی رہی، اس کے دل پر جمے ہوئے غم و غصہ کے بادل برس کر چھٹ گئے۔ اب اس کا دل ہلکا ہوچکاتھا اور اس میں جمیل کے لیے بے پناہ محبت امڈی آرہی تھی۔ دور کسی گھڑی نے تین بجائے۔ تین بجے ہیں۔ اور وہ اب تک سو نہ سکی تھی۔ کیسی منحوس ہے آج کی رات۔ یہ رات جو وہ جمیل سے الگ گزار رہی ہے۔ وہ جو کبھی اس کاتصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جب وہ کسی رشتہ دار کے گھر میں مہمان ہوتے اور انہیں مجبوراً رات الگ گزارنی پڑتی تو وہ دن بھر اس خیال سے کتنی بے چین رہا کرتی تھی۔ شام ہوتے ہی اس کا دل مرجھا جاتا۔ اداس کھوئی کھوئی سی رہتی۔ اپنے اپنےکمروں میں جانے سےپہلے وہ کسی نہ کسی طرح سب کی آنکھ بچاکر ملتے اور جب جمیل اسے اپنے بازوؤں سے الگ کرتے ہوئے اداس نگاہوں سے اس سے رخصت لیتا، ’’گڈنائٹ ڈارلنگ‘‘ تو اس کا دل بے اختیار بھر آتا۔ جی چاہتا جمیل سے چمٹ جائے۔ ’’نہیں جمیل، میں تم سے الگ نہیں رہ سکتی۔‘‘ رات اسے بالکل نیندنہیں آتی۔ اکیلی بستر پر پڑی وہ چپکے چپکے رویا کرتی۔ اور آج وہ خود اپنی مرضی سے ۔۔۔ کیسی منحوس ہے آج کی رات۔ فرشتے اس پر لعنت بھیج رہے ہوں گے۔ ہاں بھیجنے ہی کی تو بات تھی۔ اپنے شوہر سے اپنے سرتاج سے روٹھ کر ۔۔۔ وہ بھی اتنی ذرا سی بات پر۔ آخر اس نے کیا ہی کیا تھا۔ بہت دیر تک اپنے بھائی کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہا۔ اور اس کے پاس نہ آیا؟ اس کے بھائی اتنے عرصے کے بعد گاؤں سے آئے۔ کسی ضروری معاملے پر اس سے بات کرنے اور صبح کی ٹرین سے چلے جانے والے تھے اسی لیے تو وہ ان سے اتنی دیر تک باتیں کرتارہا تھا۔ اتنی چھوٹی سی بات پر وہ روٹھ کر یہاں آگئی تھی؟ وہ چادر پھینک کر اٹھ بیٹھی۔ کھلے دروازے سے جمیل کا پلنگ اچھی طرح نظر آتا تھا۔ ننھے سے نیلے بلب کی ہلکی روشنی اس کے سرہانے کی طرف سے پڑ رہی تھی۔ شاید وہ ابھی ابھی سویا تھا۔ معصوم، پرسکون، پاکیزہ چہرہ، بادام کی سی آنکھیں بند تھیں اور رخساروں پر لانبی پلکوں کے سائے آرام کر رہے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے پلنگ سے اتر کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اور آہستہ سے بستر پر رینگ گئی تاکہ جمیل کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ ابھی تکیہ پر سرٹیکا بھی نہ تھا، پیچھے سے بازو بڑھا۔ بلینکٹ اڑھاکر، سمیٹ کر اسے کھینچ لیا۔ ایک لمحہ میں اُس کی آنکھیں جھپک گئیں۔ اور ایک تسکین بھری، میٹھی کی، لذیذ سی گرمی کی آغوش میں وہ سوگئی۔